حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کی تصویر لیک معاملے پر جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آگئی، رپورٹ میں تصویر لیک کرنے والے شخص کا نام ہے، نہ کسی ادارے کا ذکرہے، رپورٹ میں صرف یہ بتایا گیا کہ مجرم کو ہٹا کر اس کے ادارے میں بھیج دیا گیا۔
پانچ جون کو سوشل میڈیا پر چلنے والی تصویر کا معاملہ علم میں آیا، 24گھنٹے میں ہی تصویر لیک کرنے والی کی رپورٹ عدالت کو پیش کردی گئی۔
جے آئی ٹی نے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر جواب جمع کرا دیا، جواب میں تسلیم کیا گیا کہ حسین نواز کی تصویر جے آئی ٹی ہی کے عملے میں سے ایک شخص نے لیک کی، یہ اس کا عمل انفرادی تھا۔
تصویر لیک کرنے والے کو جے آئی ٹی سے الگ کر دیا گیا ہے، انضباطی کارروائی ہو رہی ہے ، تصویر لیک کرنے میں جے آئی ٹی کا کوئی رکن شامل نہیں۔
جے آئی ٹی نے اپنے جواب میں موقف اختیار کیا کہ حسین نواز کی تصویر لیک کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی جائے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ تصویر حکومت نے خود لیک کی ہے۔
عمران خان کا سیاسی مؤقف اپنی جگہ لیکن جے آئی ٹی کے جواب نے مزید سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
جے آئی ٹی کے جواب میں چھپایا گیا کہ تصویر لیک کرنے والا کون تھا، اس کا تعلق کس محکمے سے تھا،تصویر لیک کرنے والے کو جے آئی ٹی کے کس رکن کی سفارش پر عملے میں شامل کیا گیا،تصویر سوشل میڈیا تک کیسے پہنچی ؟
علی زیدی کا کہنا ہے کہ تصویر ان کی ٹویٹ سے پہلے ون نامی ایک اور اکاؤنٹ سے ٹویٹ ہوئی،تو یہ ون نامی ٹیکن ٹویٹس ٹویٹر ہینڈل کس کا ہے۔
اگر جے آئی ٹی کا کوئی رکن شامل نہیں تو سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی حسین نواز کی استدعا کیوں مسترد کی جائے؟
from Voice Of Pakistan http://ift.tt/2rTQDHp
via IFTTT
No comments:
Post a Comment